Wednesday, 12 December 2012

جو محبتوں کے اساس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے


جو محبتوں کے اساس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے

جنہیں مانتا ہی نہیں یہ دل، وہی لوگ میرے ہیں ہمسفر
مجھے ہر طرح سے جوراس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے

مجھے لمحہ بھر کی رفاقتوں کے سراب اور ستائیں گے
میری عمر بھر کی جو پیاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے

یہ خیال سارے ہیں عارضی،یہ گلاب سارے ہیں کاغذی
گلِ آرزو کی جو باس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھر گئے

جنہیں کر سکا نہ قبول میں،وہ شریک راہِ سفر ہوئے
جو مری طلب مِری آس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے

مری دھڑکنوں کے قریب تھے ،مری چاہ تھے ،مرا خواب تھے
جو روز و شب مرے پاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے

No comments:

Post a Comment